جھنگ: 20 جولائی 2025ء کو جھنگ کے علاقے میں ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا جب ایک ملزم نے رشتے سے انکار پر اپنی ماموں کی بیٹی کو زہر دے کر قتل کر دیا۔ مقامی پولیس کے مطابق، ملزم طیب ادریس نے 19 سالہ طالبہ کو، جو راولپنڈی یونیورسٹی سے گھر واپس آ رہی تھی، بس سٹاپ پر اغوا کیا اور اسے زہریلی چیز کھلائی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئی۔
واقعے کی تفصیلات
ایس پی عابد ظفر کے مطابق، ملزم طیب ادریس مقتولہ کا رشتے دار تھا اور اس نے لڑکی کا رشتہ مانگا تھا۔ تاہم، لڑکی کے والدین نے اس رشتے سے انکار کر دیا تھا، جس پر ملزم نے انتقامی کارروائی کی۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ طیب نے طالبہ کو ورغلا کر اغوا کیا اور پھر اسے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس کا بیان
ایس پی عابد ظفر نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس کیس کی گہرائی سے تفتیش کر رہی ہے تاکہ واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔ پولیس نے مقتولہ کے جسم کا پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں تاکہ موت کی اصل وجہ کی تصدیق کی جا سکے۔
معاشرتی ردعمل
اس واقعے نے مقامی کمیونٹی میں شدید صدمے اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے لکھ栄養: “ایک طرف نکاح کرنے پر قتل، دوسری طرف نکاح نہ کرنے پر۔ یہ کیسا معاشرہ ہے؟” دوسرے صارف نے لکھا کہ “اس طرح کے واقعات ہمیں اپنی معاشرتی اقدار پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔”
معاشرتی مسائل اور حل
یہ واقعہ پاکستان کے معاشرے میں رشتوں سے متعلق حساسیت اور نام نہاد غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کی ایک اور مثال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی وارداتیں تعلیم کی کمی، معاشرتی دباؤ، اور رشتوں سے متعلق غیر منطقی توقعات کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں شعور اجاگر کیا جائے، خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، اور قانون کی سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
قانونی کارروائی
پاکستان کے قانون کے مطابق، قتل کے جرم کی سزا موت یا عمر قید ہو سکتی ہے۔ اس کیس میں پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملزم کے جرم کے ثبوت پختہ ہوئے تو اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نتیجہ
یہ واقعہ ایک بار پھر معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ رشتوں سے متعلق فیصلوں میں تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گی تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔
ماخذ: ایکس پر پوسٹس